ایسے کچھ لوگ بھی مٹی پہ اتارے جائیں
دیکھ کر جن کو خد و خال سنوارے جائیں
ایک ہی وصل کی تاثیر رہے گی قائم
کون چاہے گا یہاں سال گزارے جائیں
تیرے مژگاں ہیں کہ صورت کوئی قوسین کی ہے
درمیاں آ کے کہیں لوگ نہ مارے جائیں
ماہی اس پار کھڑا آپ کی رہ تکتا ہے
آپ تعظیم کریں اور کنارے جائیں
اب میسر نہیں کوئی بھی ٹھکانہ ہم کو
تم بتاؤ کہ کہاں دوست تمہارے جائیں
چند شعروں کی ضرورت ہے انہیں خاطر دوست
وہ بضد ہیں کہ وہ اشعار ہمارے جائیں
روشنی چاہیے کچھ دیر ذرا اور ہمیں
چاند رک جائے یہیں اور ستارے جائیں
No comments:
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.