حسن سادہ کا وار آنکھیں ہیں
بن ترے بیقرار آنکھیں ہیں
میری جانب ہے جو ترا چہرہ
میری جانب ہزار آنکھیں ہیں
عیب تیرا کہاں چھپے گا اب
شہر میں بے شمار آنکھیں ہیں
میں نے طرز وفا تھا اپنایا
اس لئے اشک بار آنکھیں ہیں
پارسائی کہاں گئی بولو
آج کیوں داغدار آنکھیں ہیں
ایک نقشہ تھا خواب کا کھینچا
اس لئے تار تار آنکھیں ہیں
جیسے ان میں سحاب رہتے ہوں
کتنی زار و قطار آنکھیں ہیں
جن کی تعبیر میں ملے وحشت
ایسے خوابوں پہ بار آنکھیں ہیں
وہ جو چہرہ ہی پڑھ نہیں سکتیں
کتنی جاہل گنوار آنکھیں ہیں
وہ نظر آر پار ہوتی ہے
ہائے کیا دل فگار آنکھیں ہیں
خواب دیکھا ربابؔ نے کیونکر
اس لئے سوئے دار آنکھیں ہیں
No comments:
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.