Tuesday, June 9, 2020

کون دروازہ کھلا رکھتا برائے انتظار


کون دروازہ کھلا رکھتا برائے انتظار
رات گہری ہو چلی رہرو عبث ہے کل پکار

آنکھ جل جاتی ہے لیکن خواب جھلساتی نہیں
سرمئی ڈھیری کی خنکی سے جنم لے گی بہار

کون دشت کرب کے آزار کا عادی ہوا
کون جا پایا ہے بحر درد کی موجوں کے پار

رنج میں لپٹا رہا مہتاب کا غمگیں بدن
رات ٹیرس پر کوئی سجدے میں رویا زار زار

اب کسی شکوے گلے کی کوئی گنجائش نہیں
آپ اپنے ہاتھ سے سونپا تھا اس کو اختیار

کیفیت کی پوچھ مت ہمدم کہ لطف قرب سے
آج کچھ بڑھ کر ہے اپنے اندروں بہتا خمار

شاہزادی روزن زنداں سے رہ تکتی رہی
شہر کی رخشندگی میں کھو گیا اک شہسوار

اک نظر کا معجزہ میرے قلم کا سب ہنر
اک سنہری دھیان سے برسی ہے نظموں کی پھوار

No comments:

Post a Comment

Please do not enter any spam link in the comment box.