انڈیا اپنے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیک وقت ٹکراؤ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
چین، نیپال اور پاکستان: انڈیا اپنے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیک وقت ٹکراؤ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اعتراف کیا ہے کہ مشرقی لداخ میں ایکچوئل کنٹرول لائن سے ’بڑی تعداد میں چینی فوجی انڈین علاقے میں داخل ہو گئے ہیں۔
ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ سرحدی تنازعے کے بارے میں دونوں انڈیا اور چین کے فوجی اہلکاروں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے لیکن ابھی تک تعطل ختم کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
انڈین وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ 6 جون کو دونوں ملکوں کی افواج کے اعلیٰ افسران کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔
چین اور انڈیا کے درمیان لداخ خطے کی وادی گلوان کے علاقے میں تنازعہ پانچ مئی کو اس وقت شروع ہوا تھا جب چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کے فوجیوں نے اپنے علاقے میں انڈین فوجیوں کو ایک سڑک کی تعمیر کرنے سے روکا۔
انڈیا نے فوجی نقل و حرکت کے لیے اس خطے میں دربوک سے دولت بیگ اولڈی تک 255 کلومیٹر لمبی سڑک تعمیر کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’چین کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتا تو کیا فوراً پاکستان چلا جاؤں‘انڈیا اور چین کے درمیان لداخ کے محاذ پر کیا ہو رہا ہے؟انڈیا کے ساتھ کشیدگی، چین نے امریکہ کی ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرا دیاانڈیا، چین سرحدی کشیدگی طویل عرصہ چل سکتی ہے: سابق انڈین آرمی چیفاس سڑک کی تعمیر سے وادی گلوان تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور یہ درہ قراقرم کے نزدیک ختم ہوتی ہے۔
چین وادی گلوان کو اپنا خطہ تصور کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان پینگونگ سو جھیل کے شمال میں ایل اے سی کے نزدیک جھڑپ ہوئی تھی جس میں کئی فوجی لوہے کے راڈ اور لاٹھیوں کی زد میں آ کر زخمی ہوئے تھے۔
اس وقت سے بڑی تعداد میں چینی فوجی اس خطے میں موجود ہیں۔
بعض خبروں میں بتایا گیا تھا کہ چینی افواج نے اس علاقے میں توپ اور ٹینک بھی نصب کر دیے ہیں اور جھیل کے نزدیک پختہ عمارتیں تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ وادی گلوان اس کی ملکہےاور انڈیا وہاں ’غیر قانونی تعمیرات‘ کر رہا ر
ہ علاقے میں انڈیا نے بھی بڑی تعداد میں اپنے فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ سرحد پر صورتحال کشیدہ ہے
اور کسی بھی ملک نے ابھی تک پیچھے ہٹنے کا اشارہ نہیں دیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کورونا کی وبائی بیماری پھیلنے کے بعد چین پر عالمی برادری بالخصوص امریکہ کی جانب سے زبردست دباؤ ہے اور وہ اس سے نکلنے کے لیے سرحدی معاملات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چین انڈیا کے ساتھ اپنی 3500 کلو میٹر طویل سرحد کے اہم مقامات پر انڈیا کی جانب سے سڑکیں اور دیگر عسکری اہمیت کی تعمیرات پر تشویش میں مبتلا تھا۔
کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد انڈیا میں سرکاری سطح پر چین کے خلاف فضا تیار کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو چین کے بجائے انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرنے جیسے اقدامات پر چین خاصا نالاں ہے۔
امریکہ اس معاملے میں متعدد بار چین پر نکتہ چینی جبکہ انڈیا کی براہ راست حمایت کا اعلان کر چکا ہے۔
چین انڈیا کو پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ وہ امریکہ سے اس کے ٹکراؤ میں ملوث نہ ہو۔ مبصرین کے مطابق دونوں ملکوں کے موجودہ سرحدی تنازعے کا یہ بھی سبب ہو سکتا ہے۔
روزنامہ ٹائمز آف انڈیا سے منسلک تجزیہ کار اندرانی باغچی کہتی ہیں کہ ایل اے سی کے کئی مقامات پر چین اور انڈیا کے درمیان اختلافات اور ٹکراؤ ہوتے رہتے ہیں لیکن وادی گلوان کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے کیونکہ جس خطے میں چینی فوجی داخل ہوئے ہیں وہاں وہ پہلے کبھی نہيں آئے تھے۔
’چینی فوجی گلوان وادی میں کم از کم تین مقامات پر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ چھ جون کی بات چیت کے بعد فوراً اپنی پرانی پوزیشن پر لوٹ جائیں گے کیونکہ یہ چین کے لیے ہار جیسی پوزیشن ہو جائے گی۔ میرے خیال میں وہ اس خطے میں اب طویل عرصے تک رہیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ کشیدگی ختم کرنے کے لیے اور اپنے اپنے ملکوں میں عوام کو بتانے کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں فوجیں اپنی اپنی موجودہ پوزیشن سے کچھ پیچھے ہٹنے کا طریقہ نکال لیں لیکن زمین پر حقیقی پوزیشن میں فی الحال کسی تبدیلی کی توقع کم ہے۔‘
نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ
اُدھر نیپال میں بھی انڈیا کے خلاف حال ہی میں مظاہرے ہوئے ہیں
نیپال کی پارلیمان اس وقت ایک آئینی ترمیم پر بحث کر رہی ہے جس کے تحت نیپال کے ایک نئے نقشے کو منظوری دیے جانے کی تجویز زیر غور ہے جس کے بعد بعض ایسے سرحدی علاقوں کو نیپال کا حصہ ظاہر کرنا ہے جسے انڈیا اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔
نیپال اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب گذشتہ مہینے انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈیا کی ریاست اترا کھنڈ میں نیپال کی سرحد کے نزدیک ایک سڑک کا افتتاح کیا۔ نیپال کا کہنا ہے کہ یہ سڑک نیپال کے علاقے سے گزرتی ہے۔
نیپال کی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جن علاقوں کو انڈیا اپنا علاقہ بتا رہا ہے ان علاقون کے باشندے دہائیوں سے نیپال کے انتخابات میں ووٹ ڈالتے آئے ہیں اور نیپال کے پاس اس خطے کی ملکیت کی دستاویزات موجود ہیں۔
نیپال کے سیاسی حلقوں میں انڈیا سے ناراضگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب انڈیا کے بری فوج کے سربراہ نے یہ بیان دیا کہ نیپال انڈیا کے ساتھ زمین کا تنازعہ چین کے اشارے پر الجھا رہا ہے۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ نیپال انڈیا کا ایک پرانا دوست ہے اور اس کے ساتھ سرحدی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے گا۔ لیکن اگر نیپال کی پارلیمان نے ملک کے نئے نقشے کی منظوری دے دی، جس کی توقع ہے، تو دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ تلخی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
نیپال میں اپوزیشن جماعت نیپالی کانگریس کے رہنما اور سابق وزیرِ خارجہ ڈاکٹر پرکاش سرن مہات نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے اس سے پہلے کالا پانی کے سرحدی تنازع کو تسلیم کیا تھا لیکن یہ پہلے کبھی ٹکراؤ کا سبب نہیں بنا مگر اس بار صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’نیپال میں یہ معاملہ بہت حساس شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں اس سوال پر اپوزیشن اور حکومت کے مابین اتفاق رائے ہے کہ یہ زمین نیپال کی ہے۔ ہمارے پاس اپنے دعوے کے تاریخی اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں لیکن دونوں جانب سے جس طرح کے بیانات آ رہے ہیں ان سے ماحول خراب ہو رہا ہے۔‘
نیپال میں کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں ہے اور موجودہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی چین کی قیادت سے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیپال کی حکومت نے ہانگ کانگ سے متلعق چین کے نئے قانون کی حمایت کی ہے۔
انڈیا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات
آ
ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کورونا کی وبا کو روکنے کی کوششوں میں ہیں انڈیا نے گذشتہ دنوں اچانک پاکستانی ہائی کمیشن کے دو اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کرنے کے بعد انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شدت پسند سرگرمیوں میں اضافے کے لیے بھی انڈیا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات پہلے ہی محدود کیے جا چکے ہیں جبکہ حالیہ واقعات اور بیانات سے یہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ پاکستان انڈیا کے الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
تجزیہ کار اندرانی باغچی کہتی ہیں کہ ’پاکستان سے تعلقات تو پہلے سے ہی خراب ہیں اور ہائی کمیشن کے سفارتکاروں پر جاسوسی کے الزامات پہلے بھی کئی بار لگائے جا چکے ہیں۔ اس لیے میں اسے نیا محاذ کھولنے سے تعبیر نہیں کرتی۔ میرے خیال میں ماحول پہلے سے ہی کافی کشیدہ ہے۔‘
یہ غالباً پہلا موقع ہے جب انڈیا نے اپنے تین پڑوسی ملکوں کے ساتھ بیک وقت محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے اس دور میں انڈیا اپنے لیے ایک سنہری موقع دیکھ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق انڈیا کو لگتا ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں چین اور دوسرے ممالک اقتصادی طور پر کمزور ہوں گے اور اُن کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہو گا جب کہ انڈیا ان حالات میں اقتصادی طور پر خود انحصاری حاصل کرے گا اور مضبوط بن کر ابھرے گا۔
انڈیا کی موجودہ حکمت عملی سنہری موقع کے اسی ’مودی ڈاکٹرائن‘ پر قائم ہے۔
انڈیا میں کورونا کے مریضوں کی تعداد اب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انڈیا نے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے فرانس کو پیچھے چھوڑ کر کورونا سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر آ چکا ہے۔
انڈیا کو امید ہے کہ چین اپنے حالات کے سبب وادی گلوان میں اپنی پرانی پوزیشن پر واپس چلا جائے گا۔ سرحدی تنازعے کے تعطل کو توڑنے کے لیے سنیچر کو لفٹیننٹ جنرل کی سطح پر اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے درمیان بات چیت ہو گی۔
اگر چینی فوجی انڈیا کی توقع کے مطابق اپنی پرانی پوزیشن پر لوٹ جاتے ہیں تو یہ انڈیا کی بہت بڑی عسکری، سیاسی اور نفسیاتی کامیابی ہوگی لیکن اگر انھوں نے پوری وادی گلوان پر اپنا دعویٰ برقرار رکھا اور اپنی پوزیشن سے ہٹنے سے انکار کیا تو یہ انڈیا کے لیے صرف ایک سرحدی پیچیدگی نہیں بلکہ چین سے ایک طویل سرحدی ٹکراؤ کے آغاز کا اشارہ ہو گا۔
No comments:
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.